*بسم اللہ الرحمن الرحیم* *سُوْرَةُ الْحَشْر (حصہ ہشتم، آخری)* موضوع اور مضامین: سورۃ کا موضوع، جیسا کہ پچھلے حصوں میں بیان ہوا، جنگ بنی نضیر پر تبصرہ ہے۔ اس میں بحیثیت مجموعی چار مضامین بیان ہوئے ہیں۔ (1)۔ پہلی چار آیتوں میں دنیا کو اس انجام سے عبرت دلائی گئی ہے جو ابھی ابھی بنی نضیر نے دیکھا تھا۔ ایک بڑا قبیلہ جو کے افراد کی تعداد اس وقت مسلمانوں کی تعداد سے کچھ کم نہ تھی، جو مال و دولت میں مسلمانوں سے بہت بڑھا ہوا تھا، جس کے پاس جنگی سامان کی بھی کمی نہ تھی، جس کی گڑھیاں بڑی مضبوط تھیں، صرف چند روز کے محاصرے کی تاب بھی نہ لاسکا اور بغیر اس کے کہ کسی ایک آدمی کے قتل کی بھی نوبت آئی ہوتی وہ اپنی صدیوں کی جمائی بستی چھوڑ کر جلا وطنی قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ مسلمانوں کی طاقت کا کرشمہ نہیں تھا بلکہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے نبرد آزما ہوئے تھے اور جو لوگ اللہ کی طاقت سے ٹکرانے کی جرأت کریں وہ ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ (2)۔ آیت 5 میں قانون جنگ کا یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے دشمن کے علاقے میں جو تخریبی کار روائی کی جائے وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔ (3)۔ آیت 6 سے 10 تک یہ بتایا گیا ہے کہ ان ممالک کی زمینوں اور جائدادوں کا بندوبست کس طرح کیا جائے جو جنگ یا صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے زیر نگیں آئیں۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک مفتوحہ علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اس لیے یہاں اس کا قانون بیان کر دیا گیا۔ (4)۔ آیت 11 سے 17 تک منافقین کے اس رویہ پر تبصرہ کیا گیا ہے جو انہوں نے جنگ بنی نضیر کے موقع پر اختیار کیا تھا، اور ان اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے جو در حقیقت ان کے اس رویہ کی تہ میں کام کر رہے تھے۔ (5)۔ آخری رکوع پورا ایک نصیحت ہے جس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے ہوں، مگر ایمان کی اصل روح سے خالی رہیں۔ اس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا کیا ہے، تقویٰ اور فسق میں حقیقی فرق کیا ہے، جو قرآن کو ماننے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کی اہمیت کیا ہے، اور جس خدا پر ایمان لانے کا وہ اقرار کرتے ہیں وہ کن صفات کا حامل ہے۔

*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*سُوْرَةُ الْحَشْر (حصہ ہشتم، آخری)*

موضوع اور مضامین:
سورۃ کا موضوع، جیسا کہ پچھلے حصوں میں بیان ہوا، جنگ بنی نضیر پر تبصرہ ہے۔ اس میں بحیثیت مجموعی چار مضامین بیان ہوئے ہیں۔
(1)۔ پہلی چار آیتوں میں دنیا کو اس انجام سے عبرت دلائی گئی ہے جو ابھی ابھی بنی نضیر نے دیکھا تھا۔ ایک بڑا قبیلہ جو کے افراد کی تعداد اس وقت مسلمانوں کی تعداد سے کچھ کم نہ تھی، جو مال و دولت میں مسلمانوں سے بہت بڑھا ہوا تھا، جس کے پاس جنگی سامان کی بھی کمی نہ تھی، جس کی گڑھیاں بڑی مضبوط تھیں، صرف چند روز کے محاصرے کی تاب بھی نہ لاسکا اور بغیر اس کے کہ کسی ایک آدمی کے قتل کی بھی نوبت آئی ہوتی وہ اپنی صدیوں کی جمائی بستی چھوڑ کر جلا وطنی قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ مسلمانوں کی طاقت کا کرشمہ نہیں تھا بلکہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے نبرد آزما ہوئے تھے اور جو لوگ اللہ کی طاقت سے ٹکرانے کی جرأت کریں وہ ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔
(2)۔ آیت 5 میں قانون جنگ کا یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے دشمن کے علاقے میں جو تخریبی کار روائی کی جائے وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔
(3)۔ آیت 6 سے 10 تک یہ بتایا گیا ہے کہ ان ممالک کی زمینوں اور جائدادوں کا بندوبست کس طرح کیا جائے جو جنگ یا صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے زیر نگیں آئیں۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک مفتوحہ علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اس لیے یہاں اس کا قانون بیان کر دیا گیا۔
(4)۔ آیت 11 سے 17 تک منافقین کے اس رویہ پر تبصرہ کیا گیا ہے جو انہوں نے جنگ بنی نضیر کے موقع پر اختیار کیا تھا، اور ان اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے جو در حقیقت ان کے اس رویہ کی تہ میں کام کر رہے تھے۔
(5)۔ آخری رکوع پورا ایک نصیحت ہے جس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے ہوں، مگر ایمان کی اصل روح سے خالی رہیں۔ اس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا کیا ہے، تقویٰ اور فسق میں حقیقی فرق کیا ہے، جو قرآن کو ماننے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کی اہمیت کیا ہے، اور جس خدا پر ایمان لانے کا وہ اقرار کرتے ہیں وہ کن صفات کا حامل ہے۔
*بسم اللہ الرحمن الرحیم* *سُوْرَةُ الْحَشْر (حصہ ہشتم، آخری)* موضوع اور مضامین: سورۃ کا موضوع، جیسا کہ پچھلے حصوں میں بیان ہوا، جنگ بنی نضیر پر تبصرہ ہے۔ اس میں بحیثیت مجموعی چار مضامین بیان ہوئے ہیں۔ (1)۔ پہلی چار آیتوں میں دنیا کو اس انجام سے عبرت دلائی گئی ہے جو ابھی ابھی بنی نضیر نے دیکھا تھا۔ ایک بڑا قبیلہ جو کے افراد کی تعداد اس وقت مسلمانوں کی تعداد سے کچھ کم نہ تھی، جو مال و دولت میں مسلمانوں سے بہت بڑھا ہوا تھا، جس کے پاس جنگی سامان کی بھی کمی نہ تھی، جس کی گڑھیاں بڑی مضبوط تھیں، صرف چند روز کے محاصرے کی تاب بھی نہ لاسکا اور بغیر اس کے کہ کسی ایک آدمی کے قتل کی بھی نوبت آئی ہوتی وہ اپنی صدیوں کی جمائی بستی چھوڑ کر جلا وطنی قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ مسلمانوں کی طاقت کا کرشمہ نہیں تھا بلکہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے نبرد آزما ہوئے تھے اور جو لوگ اللہ کی طاقت سے ٹکرانے کی جرأت کریں وہ ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ (2)۔ آیت 5 میں قانون جنگ کا یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے دشمن کے علاقے میں جو تخریبی کار روائی کی جائے وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔ (3)۔ آیت 6 سے 10 تک یہ بتایا گیا ہے کہ ان ممالک کی زمینوں اور جائدادوں کا بندوبست کس طرح کیا جائے جو جنگ یا صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے زیر نگیں آئیں۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک مفتوحہ علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اس لیے یہاں اس کا قانون بیان کر دیا گیا۔ (4)۔ آیت 11 سے 17 تک منافقین کے اس رویہ پر تبصرہ کیا گیا ہے جو انہوں نے جنگ بنی نضیر کے موقع پر اختیار کیا تھا، اور ان اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے جو در حقیقت ان کے اس رویہ کی تہ میں کام کر رہے تھے۔ (5)۔ آخری رکوع پورا ایک نصیحت ہے جس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے ہوں، مگر ایمان کی اصل روح سے خالی رہیں۔ اس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا کیا ہے، تقویٰ اور فسق میں حقیقی فرق کیا ہے، جو قرآن کو ماننے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کی اہمیت کیا ہے، اور جس خدا پر ایمان لانے کا وہ اقرار کرتے ہیں وہ کن صفات کا حامل ہے۔ *بسم اللہ الرحمن الرحیم* *سُوْرَةُ الْحَشْر (حصہ ہشتم، آخری)*  موضوع اور مضامین: سورۃ کا موضوع، جیسا کہ پچھلے حصوں میں بیان ہوا، جنگ بنی نضیر پر تبصرہ ہے۔ اس میں بحیثیت مجموعی چار مضامین بیان ہوئے ہیں۔ (1)۔ پہلی چار آیتوں میں دنیا کو اس انجام سے عبرت دلائی گئی ہے جو ابھی ابھی بنی نضیر نے دیکھا تھا۔ ایک بڑا قبیلہ جو کے افراد کی تعداد اس وقت مسلمانوں کی تعداد سے کچھ کم نہ تھی، جو مال و دولت میں مسلمانوں سے بہت بڑھا ہوا تھا، جس کے پاس جنگی سامان کی بھی کمی نہ تھی، جس کی گڑھیاں بڑی مضبوط تھیں، صرف چند روز کے محاصرے کی تاب بھی نہ لاسکا اور بغیر اس کے کہ کسی ایک آدمی کے قتل کی بھی نوبت آئی ہوتی وہ اپنی صدیوں کی جمائی بستی چھوڑ کر جلا وطنی قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ مسلمانوں کی طاقت کا کرشمہ نہیں تھا بلکہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے نبرد آزما ہوئے تھے اور جو لوگ اللہ کی طاقت سے ٹکرانے کی جرأت کریں وہ ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ (2)۔ آیت 5 میں قانون جنگ کا یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے دشمن کے علاقے میں جو تخریبی کار روائی کی جائے وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔ (3)۔ آیت 6 سے 10 تک یہ بتایا گیا ہے کہ ان ممالک کی زمینوں اور جائدادوں کا بندوبست کس طرح کیا جائے جو جنگ یا صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے زیر نگیں آئیں۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک مفتوحہ علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اس لیے یہاں اس کا قانون بیان کر دیا گیا۔ (4)۔ آیت 11 سے 17 تک منافقین کے اس رویہ پر تبصرہ کیا گیا ہے جو انہوں نے جنگ بنی نضیر کے موقع پر اختیار کیا تھا، اور ان اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے جو در حقیقت ان کے اس رویہ کی تہ میں کام کر رہے تھے۔ (5)۔ آخری رکوع پورا ایک نصیحت ہے جس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے ہوں، مگر ایمان کی اصل روح سے خالی رہیں۔ اس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا کیا ہے، تقویٰ اور فسق میں حقیقی فرق کیا ہے، جو قرآن کو ماننے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کی اہمیت کیا ہے، اور جس خدا پر ایمان لانے کا وہ اقرار کرتے ہیں وہ کن صفات کا حامل ہے۔ Reviewed by bhangwarblogspot on 1:38 AM Rating: 5

No comments:

Powered by Blogger.